ایک میری نظر ہے جسے گھر نہیں دکھائی دیتا
کسی بھی آئینے سے تیرا اندر نہیں دکھائی دیتا
شاید اسی کو ہم خامشی میں یاد کرتے ہیں
کہ دل میں آج بھی کوئی حشر نہیں دکھائی دیتا
ہماری بندگی بھی دیکھو کیا کیا رنگ لاگئی ہے کہ
سبھی فرشتے بن گئے ہیں بشر نہیں دکھائی دیتا
کہا تھا شے آتشگیر ہیں منزلیں رعشہ سے چلو
پھر بھی دیوانوں پہ بات کا اثر نہیں دکھائی دیتا
آدم جگاد سے آج تک دکھ کی لکیروں سے گذرا
لیکن قسمت کہتی ہے کہ چکر نہیں دکھائی دیتا
مسافر ہیں تو ممتحن ملتے رہیں گے راہ میں مگر
کوئی ہم سا بھی ہوتا تو یہ ہجر نہیں دکھائی دیتا
کون سوچتا ہے کہ زندگی کو فراق سے منتشر کروں
مگر عشق میں سنتوشؔ اکثر نہیں دکھائی دیتا