نہ گرے ہیں کبھی اعداء , نہ ہی اغیار گرے
جب بھی نظروں سے گرے یار و نمک خوار گرے
جن کا آموختہ دہراتے رہے مور و صبا
ایک ٹھوکر پہ وہ ناداں سر بازار گرے
ہمیں گرتا ہوا دیکھا تو وہ خوش ہو کے ہنسے
ہم اٹھے , پھر گرے , پھر اٹھ کے کئی بار گرے
مقصد زندگی بس ایک بچا ہے نوشی
جیسے ممکن ہو بس اک دوجے کی دستار گرے