ایک چہرہ میری آنکھوں میں اترتا کیوں ہے
بار بار آ کے مرے دل میں ٹھہرتا کیوں ہے
جب مرا اس کا تعلق ہی نہیں برسوں سے
پھر مرے شہر سے آخر وہ گزرتا کیوں ہے
وہ جو کہتا ہے اسے مجھ سے محبت ہی نہیں
میں جو اک پل نہ ملوں اس سے تو مرتا کیوں ہے
میں نے جب دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے اس کو
آئینہ دیکھتا کیوں ہے وہ سنورتا کیوں ہے
جس میں ہمت نہیں حالات سے لڑ جانے کی
پھر دکھاوے کلۓ پیار وہ کرتا کیوں ہے
جاگتا جب کہ نہیں ساتھ مرے یہ سورج
صبح ہوتے ہی مرے ساتھ ابھرتا کیوں ہے
گر اسے خوف زمانے کا نہیں ہے باقرؔ
پھر بتاۓ کہ وہ وعدوں سے مکرتا کیوں ہے