ایک کچّے مکاں سے گزرا ہوں
میں کسی داستاں سے گزرا ہوں
عشق سجدے میں سر جھکایا ہے
درد آہ و فغاں سے گزرا ہوں
وہ زمیں سے لپٹ گئی برسوں
اور میں آسماں سے گزرا ہوں
سرخ ہونے لگے ہیں چھالے بھی
جانے کس کس نشاں سے گزرا ہوں
دل عبادت کا ہوگیا مائل
میں ترے آستاں سے گزرا ہوں
پھول رکھنے لگا ہوں دامن میں
شوق کے پاسباں سے گزرا ہوں
ایک صحرا کی ریت سے اکثر
اور جانے کہاں سے گزرا ہوں
خوف کھاتی ہے جاں دلیری تک
میں اچانک وہاں سے گزرا ہوں
چاند تارے چھپا لئے خود میں
اور آتش فشاں سے گزرا ہوں
چار پل کے یقین کے صدقے
جانے کتنے گماں سے گزرا ہوں
روشنی کی طلب نہیں مجھ میں
دیپ کے سائباں سے گزرا ہوں
بزم یوں ہی نہیں سجی محمود
آگ جلتی، دھواں سے گزرا ہوں