ہم اپنی محبت کے انجام سے ڈرتے ہیں
ٓانے والے کل کے تماشہ عام سے ڈرتے ہیں
ڈرتے ہیں خود کی زندگی اجیرن نہ بنا دیں
زمانے میں اپنی عزت کے نیلام سے ڈرتے ہیں
ہمارا کیا؟ ھے ہم تو بے ادب گستاخ ٹہرے
مگر ہم صاحب کے ادب و احترام سے ڈرتے ہیں
وہ عہد وفا ہی کیا جو توڑ نہ نبھایا جاٗئے
ہم زندگی کے لا حاصل ہر مقام سے ڈرتے ہیں
سینے میں اٹکا ھے دل جائے کہاں کدھر
اے حرکت قلب ہم تیرے ابہام سے ڈرتے ہیں
بد سے برا ہو تو بھلے کی امید جگے
اے ھے زندگی ہم امید ناتمام سے ڈرتے ہیں
سارے جہان سے اسد ھے تم کو رکھا عزیز
جو تم کو نہیں پسند ہر اس اقدام سے ڈرتے ہیں