اے حسرت ناکام کیا کیجیے
یونہی ہوئے بدنام کیا کیجیے
ناصح اب گلہ ہم سے نہ کیجیے
دل نے کیا دل کا کام کیا کیجیے
وہی اک ٹھکانہ تھا آنکھوں کی ٹھنڈک
اب اجنبی اس کے دروبام کیا کیجیے
لٹ گئے پیار میں جسکے حبیب
ہیں اسی کے لبوں پہ دشنام کیا کیجیے
ہزار چاہی غم دوراں سے نجات
اور بڑھے رنج و آلام کیا کیجیے
غیر تو غیر پر اپنوں نے بھی
کیا کیا نہ دیئے نام کیا کیجیے
حبیب تو پروانہ ہے جل مرے گا یونہی
رہ گئی شمع رہا اس کا کام کیا کیجیے