زرد موسم پہ تیرے روپ کی بہار کروں
اے حسیں راز تجھے کیسے آشکار کروں
کبھی جی چاہتا ہے روبرو بٹھا کے تجھے
خود اپنی ذات کے وجود سے انکار کروں
میرے قریب زندگی ہے محبت کا ہی کا نام
تجھے بھلا ؤں اگر ۔ خود کو گنہگار کروں
کبھی تو جاگ سا اٹھتا ہے سمندر مجھ میں
خطا کچھ ایسی ہوئی ہے کہ بار بار کروں
زمانہ لاکھ نفرتوں کے تیر برسائے
میرے جنون کا فتوی ہے فقط پیار کروں
وہاں سے ایک تمہارا ہی رنگ ابھرتا ہے
میں چلتے وقت کی جب دھڑکنیں شمار کروں