اے مری جان سنو!
Poet: M Usman Jamaie By: M Usman Jamaie, karachiاے مری جان، سنو! خود کو سجاتی کیوں ہو
حُسن معصوم کو میک اپ میں چھپاتی کیوں ہو
ان حسیں ہونٹوں کو سرخی کی ضرورت کب ہے
نین بھونرے سے یہ کاجل کے نہیں حاجت مند
گُل سے رخساروں کو رنگینی کی حاجت کب ہے
کسی کنگن کسی گجرے کی تمھیں کیوں ہے طلب؟
جانِ من تم تو گلابوں سے بنا پیکر ہو
جو ہو خوش بو اسے خوش بو کی طلب کیوں کرہو
اپنے معصوم سے چہرے کو ذرا دیکھو تو
کیا کرے گا کوئی سنگھار اسے اے مری جان سنو!
محمد عثمان جامعی
اے مری جان، سنو! خود کو سجاتی کیوں ہو
حُسن معصوم کو میک اپ میں چھپاتی کیوں ہو
ان حسیں ہونٹوں کو سرخی کی ضرورت کب ہے
نین بھونرے سے یہ کاجل کے نہیں حاجت مند
گُل سے رخساروں کو رنگینی کی حاجت کب ہے
کسی کنگن کسی گجرے کی تمھیں کیوں ہے طلب؟
جانِ من تم تو گلابوں سے بنا پیکر ہو
جو ہو خوش بو اسے خوش بو کی طلب کیوں کرہو
اپنے معصوم سے چہرے کو ذرا دیکھو تو
کیا کرے گا کوئی سنگھار اسے اور حسیں
یہ دیوالی سی درخشاں، یہ چمکتی آنکھیں
چاند سے چہرے پہ تاروں سی دمکتی آنکھیں
جس سے کچھ اور یہ چمکیں کہیں سرمہ وہ نہیں
تو مری جان کہو! خود کو بناتی کیوں ہو
حسن معصوم کو میک اپ میں چھپاتی کیوں ہو
یوں بھی تم کو لب وعارض کے سوا چاہتا ہوں
میں تمھیں جسم کی خواہش سے ورا چاہتا ہوں
مری خاطر نہ سنوارو نہ سجاؤ خود کو
میں تمھیں رسموں رواجوں سے جدا چاہتا ہوں
اور حسیں
یہ دیوالی سی درخشاں، یہ چمکتی آنکھیں
چاند سے چہرے پہ تاروں سی دمکتی آنکھیں
جس سے کچھ اور یہ چمکیں کہیں سرمہ وہ نہیں
تو مری جان کہو! خود کو بناتی کیوں ہو
حسن معصوم کو میک اپ میں چھپاتی کیوں ہو
یوں بھی تم کو لب وعارض کے سوا چاہتا ہوں
میں تمھیں جسم کی خواہش سے ورا چاہتا ہوں
مری خاطر نہ سنوارو نہ سجاؤ خود کو
میں تمھیں رسموں رواجوں سے جدا چاہتا ہوں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






