غبارِ راہ میں اب کوئی بھی تو خواب نہیں
اے میرے دوست ترا کوئی بھی جواب نہیں
مجھے امید کہ مہکے گا میرا پھر آنگن
تمہاری یاد کالیکن کوئی گلاب نہیں
عجیب بات ہے تم آج پھر نہ پڑھ سکے
مری وفا کا کوئی دوسرا تو باب نہیں
تری گلی میں نہ جاؤں گی کون کہتا ہے
تری گلی میں وفا کاکوئی حساب نہیں
کوئی بتائے کہ سپنے وہ کیسے چور ہوئے
درِ حیات میں اترا اگر عذاب نہیں
غریبِ شہر تو گمنام مر گیا وشمہ
امیرِ شہر کا مرتا تو کوئی خواب نہیں