اے کاش اس عید تو یوں آئے
Poet: maria ghouri By: maria ghouri, haroonabadجیسے روٹھی بارش
جیسے کامیاب ناکام کوشش
جیسے حبس میں خنک ہوا
جیسے پوری ہو بن مانگی دعا
جیسے بادبانوں میں سروں کی بہار
جیسے تڑپتے دل کو ملے قرار
جیسے سونی نگاہوں میں اترے خواب
جیسے حشک زمیں ہو سراب
جیسے کالی رات کے بعد سنہری لہر
جیسے سمندر میں اٹھی تیز لہر
جیسے آتا ہے آنکھ میں آنسو
جیسے خوشبو پھیلے ہر سو
کاش تو یوں آئے
جیسے ساون کی پہلی جھڑی
جیسے خوش قسمتی مرے دریچے پہ کھڑی
جیسے لوٹے رتجگوں کی آنکھوں میں نیند
جیسے پوری ہو شدید حسرت دید
جیسے ہونٹوں پہ آئے بے جا تبسم
جیسے خشک ہو غم زدہ چشم نم
کاش تو یوں آئے
جیسے چاند پہ آتا جوبن
جیسے مہکتا کلیوں سے چمن
جیسے چلا آتا ہے خواب ترا
جیسے بےچین کرتا ہر پل خیال ترا
جیسے روشن ہوتا ہے سونا سویرا مرا
جیسے ہتھیلی بنتی لکیر
جیسے پتھر پہ لکھی تحریر
اے کاش تو اس عید یوں آئے
اور ساری عیدیں
سنگ مرے رنگ پیار کا اوڑھے
ہمیشہ ساتھ یوں ہی رہے
آمین
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






