صورتِ ابر مرے سر پہ صدا دیتا ہے
اب یہ ہونٹوں پہ دعا ہے تو ، دعا دیتا ہے
اپنے پیکر میں جیا کرتی ہے دنیا لیکن
وہ عجب شخص ہے وہ مجھ کو صدا دیتا ہے
پاس رہ کر بھی رفاقت نہیں مل پاتی کبھی
دور رہ کر بھی مجھ کو وہ دعا دیتا ہے
اس سے پہلے کہ کوئی حرف دے لب پر دستک
وہ مری ان کہی ہر بات سنا دیتا ہے
جب بھی ہوتی ہے شبِ زیست میں تاریکی سی
بن کے مہتاب مری شب میں ضیا دیتا ہے
سارے جذبوں کی محبت کی چمک ہو جن میں
اُن ستاروں سے مری مانگ بھرا دیتا ہے
زخم کیسا ہی ہو دیتا ہی نہیں درد مجھے
درد سے پہلے ہی وہ اُسکی دوا دیتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ تھم جائیں گی سانسیں میری
کوئی پل کو جو وہ خاموش ہُوا دیتا ہے
کیوں نہ وشمہ میں غرور اپنے مقدر پہ کروں
اِس قدر پیار بھلا کس کو ملا دیتا ہے