بات نکلی ہے تو پھر کوچہءِ جاں تک پہنچے
بے بسی اب تو میری آہ و فغاٰء تک پہنچے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
ایسا نہ ہو کہیں میرے گریباں تک پہنچے
سوزِ دل، شوقِ وصل اور یہ ہجر کی رات
بڑھتی جائے نہ رکے جانے کہاں تک پہنچے
نالہءِ ہجر ستاروں سنو، مہتاب سنو
سن لو آکاش و زمیں، سن لو جہاں تک پہنچے
عشق کامل ہے تو تنہائی میری منزل کیوں؟
آبلہ پا تھے مگر ہم بھی کہاں تک پہنچے!