وہ اِک لڑکی
جسے گفتگو پر عبور نہ تھی
جو الفاظ کے مفہوم میں اُلجھی رہتی
جو عنوان کی تلاش میں کہو جاتی
یوں اسکا دل دھڑکتا تھا
زباں لرزہ یوں رہتی تھی
ادھورے لفظ ہونٹوں سے ادا مشکل سے ہو پاتے
اکثر ایسا ہوتا تھا
اسے کہنا ہو جو مجھ سے
وہ ہمیشہ بھول جاتی تھی
بارہا گفتگو کے درمیاں خاموش ہو جاتی
اپنے سرخ ہونٹوں کو دانتوں میں دبا لیتی
میری ہم کلامی سے بہت بیزار ہو جاتی
اور اب وہی لڑکی، وہی گم سم سی لڑکی
کئی بے رنگ محفل کو اپنے رنگوں سے بھرتی ہے
نئے انداز ہیں اب اسکے
الگ رنگ روپ ہے اسکا
بہت چنچل طبیعت ہے
بہت بے باک ہے اب وہ
وقت کروٹ ہوا ہے یوں
وہ آج جب پاس آ بیٹھی
مجھے کچھ اس سے کہنا تھا
میرے الفاظ لرزہ تھے
میں سب کچھ بھول بیٹھا تھا
اور میرا دل بھی دھڑکا تھا
میں عقل و فہم و دانائی
ان سب سے گریزاں تھا
کہ آج باتوں کا جادوگر
بہت خاموش بیٹھا تھا