سچائی کو افسانوں میں لکھیں گے کسی دن
باطل کی تو ہر حال میں لائیں گے کسی دن
میں اپنے مقابل ہی کھڑی سوچ رہی ہوں
باغوں کی فضاؤں میں یہ آئیں گے کسی دن
آنکھوں میں ہے اک درد کا طوفان اگر چہ
اک ایسی گھٹن ہے کہ بلائیں گے کسی دن
جب اس نے محبت کا زمانہ نہیں ہونا
اب نقش محبت کا بنائیں گے کسی دن
سو جاتے ہیں سب اوڑھ کے لمبی سی جدائی
ان ہجر کی راتوں سے جگائیں گے کسی دن
اب موسمِ باراں کی تڑپ ہے مجھے شاید
گھر اپنے جو صحرا بھی بلائیں گے کسی دن
جو دل کے خذینے میں مرے راز چھپے ہیں
اک بار بھی سینے سے لگائیں گے کسی دن
دریا پہ کوئی پیاس کا پیکر بھی نہیں ہے
اور دل کے سمندر میں نہائیں گے کسی دن
جس زیست کے بازار میں بیٹھی ہوں میں وشمہ
اس زیست کا یہ بوجھ اٹھائیں گے کسی دن