بدلتے دیکھے ہیں در کیسے کیسے
رکھے ہیں چہرے پہ سر کیسے کیسے
ہزاروں جستجوؤں کے جلو میں
منازل کا ہے اک ڈر کیسے کیسے
تھی بے معنی یہ میری زندگانی
ذرا دیکھے یہ ہمسر کیسے کیسے
ہماری بے قراری کے موافق
اگر بن جائے خود سر کیسے کیسے
عجب سی دل کو راحت دے گیا وہ
تصور میں تھے شب بھر کیسے کیسے
ابھر آتا ہے دل میں درد میرا
یہ سنتے تھے مقدر کیسے کیسے
کہیں سے ڈھونڈ لا تقدیرمیری
مرے دل میں ہیں گوہر کیسے کیسے
مرے اشعار کے زینے پہ پھر دیکھ
تصوف کے ہیں سخنور کیسے کیسے
تمہاری ذات میں وشمہ وفا کا
اچھلتا ہے سمندر کیسے کیسے