بس تیری یاد کا فسانہ ہے
رات ہجر میں گذری بہانہ ہے
نہ تیرے ستم کی بات ہے
نہ میری بدنصیبی کا ٹھکانہ ہے
محور سوچ کا آج بھی تو ہے
دیکھ تجھ سے کتنا یارانہ ہے
دیکھ ذرا کیا کیا فسانہ ہے
تیرا میرا چرچا لب زمانہ ہے
ہے تجھ کو ہی نہیں میری خبر ورنہ
آگاہ میری حالت زار سے زمانہ ہے