بسا آنکھوں میں کوئی خواب بن کر
اترا پھر دل میں وہ عذاب بن کر
ہجر میں کیا حال رہا کیا بتا ئیں
بہا آنکھوں سے خون آب بن کر
تیرے پیجھے پھول تیری طرح نکلے
دھوکہ دے گئے کانٹے گلاب بن کر
سوال میرے رہ گئے سوال بن کر
آئے تیرے سوال جو جواب بن کر
تجھے کیا بتائیں گئے دنوں کی باتیں
آتے ہیں یاد وہ لمحے احتساب بن کر
عمر بھر اب تیری یادوں کو پڑھنا ہے
آیا ہے زندگی میں تو نصاب بن کر
غریب نہیں واقعی غریب تھا وہ شاکر
گزاری زندگی جس نے نواب بن کر