بعض فرسودہ رسمیں کھولنی پڑیں گی
کچھ بیہودہ قسمیں توڑنی پڑیں گی
جو گذر گیا اس سے احتیاج نہیں
مگر قیام سمتیں جوڑنی پڑیں گی
اس جہاں کے کیا ہیں واجب قرینے
باتوں پر باتیں تھمنی پڑیں گی
کثیر خلشوں کو چھان کر پوچھو کہ
ہمیں کون سی الجھنیں رکھنی پڑیں گی
ضبط کرکے بھی بڑا دکھ پالیا ہے
اب انداز طرزیں بدلنی پڑیں گی
بحر سفر بڑا ارتعاش دیتا ہے مگر
سنتوشؔ کچھ تو لہریں سہنی پڑیں گے