بُرا کیا تھا محبت میں ذرا سا مقتدر ہوتا
وصالِ یار بس میری رضا پر منحصر ہوتا
مسافت کی تھکن کا بوجھ کچھ معنی نہیں رکھتا
کنارے پر اترتے وقت کوئی منتظر ہوتا
وفا میری پریشاں کرگئی نامہرباں جیسے
اثر اس کی جفا کا بھی صبا سے منتشر ہوتا
ابھی تک ہے سرورِ وارداتِ قلب اے واعظ
زمانہ خود کو دہراتا، وقوعہ کاش پھر ہوتا
مزاج یار تو برہم ہمیشہ سے ہی تھا اظہر
ترے جیسا اگر ہوتا، ذرا سا منکسر ہوتا