بُرا کیا تھا محبت میں ہوا تو یہ کیا سمجھا
وصالِ یار بس مری رضا پر ہی ملا سمجھا
مسافت کی تھکن کا بوجھ کچھ معنی نہیں رکھتا
کنارے پر اترتے وقت کوئی راستہ سمجھا
وفا میری پریشاں کرگئی نامہرباں جیسے
اثر اس کی جفا کا بھی صبا سےہی ہوا سمجھا
دعا کرنا کہ جگنو رات تاریکی میں جب چمکیں
تمہاری اور جانے کے سبھی رستہ اچھا سمجھا
تھکے قدموں سے گزری ساتھ ساری زندگی اپنی
نہ اس کا ہم قدم میں تھا نہ وہ تھا آسرا سمجھا
سخن پر میرے بس ان کا ہی غلبہ ہے اجارہ ہے
تصور میں وہ آتے ہیں تو چلتی ہے ہوا سمجھا
مزاج یار تو برہم ہمیشہ سے وہ تھا وشمہ
ترے جیسا اگر ہوتا، ذرا دیوانہ سا سمجھا