بچھڑ چکا ہے وہ مجھ سے سدا رہا ہے کوئی
دریچہ کھول کہ دیکھو صدارہا ہے کوئی
میں کھو گئی ہوں یہ کیسے حسیں خیالوں میں
بڑی خموشی سے اپنا بنا رہا ہے کوئی
یوں اس کی سانسوں کی خوشبو رچی ہے سانسوں میں
اسی کو کرنے کا دل نے کہا رہا ہے کوئی
تصورات کی دنیا حسین ہونے لگی
وہ اپنے ساتھ کئی پہ چلا رہا ہے کوئی
بہت دنوں سے مری نیند بھی ہے روٹھی ہوئی
اداسیوں بھرا موسم مٹا رہا ہے کوئی
یقین کرنے کو دل چاہتا تو ہے میرا
خذاں تھی زیست میں لیکن وفا رہا ہے کوئی
وہ کام زیست میں کرنا پڑا مجھے اکثر
مری زمیں پہ وہ میرا خدا رہا ہے کوئی
خبر نہ ہو گی اسے میرے پیار کی وشمہ
میں کہہ سکوں گی نہ اس کوبنا رہا ہے کوئی