بڑی عجیب لڑکی ہے
کسی سے کچھ نہیں کہتی
زندگی کی تلخیوں کو
چپ چاپ ہے سہتی
بڑا ہے حوصلہ اس کا
جو اتنے دُکھ چھپاتی ہے
غموں سے چور ہو کر بھی
ہمیشہ مسکراتی ہے
صبر جب حد سے بڑھ جائے
درد جب سر کو چڑھ جائے
تو وائیلن تھام لیتی ہے
اور اکثر ایسا کرتی ہے
بجاتی ہے دُھنیں دِلسوز
اور من کو ہلکا کرتی ہے
نہیں سمجھتی وہ ناداں
درد، درد ہی رہتا ہے
چاہے بدل بھی لو
اندازِ بیاں
میں چاہتا ہوں وہ اپنا سر
اُٹھا کر اپنے وائیلن سے
رکھ دے میرے کاندھے پر
میں چاہتا ہوں کہ وہ لڑکی
اپنے وائیلن کو توڑے
اپنے سارے دُکھ سکھ وہ
میرے ذات سے جوڑے