بڑی مشکل سے آمادہ ہوا ہے
ملیں گے اب کہیں وعدہ ہوا ہے
مرا گاٶں اسے اچھا لگا ہے
یہاں پر اس لیے ٹھہرا ہوا ہے
بتا آثار چہرے کے رہے ہیں
ذرا سا آج وہ سہما ہوا ہے
سدھر پایا نہیں ہے زخم کھا کر
نہیں وہ آج تو بدلا ہوا ہے
گزاری زیست سوزِ ہجر میں ہے
وہ کب سے سولی پر لٹکا ہوا ہے
نہیں پوچھا کسی نے حال اس کا
وہاں سے اس لیے چلتا ہوا ہے
سدھر شہزاد پہلے سے گیا تھا
بڑی مشکل سے وہ اچھا ہوا ہے