بڑے اتہاس کے اک عاشقی لے گذرا
کہاں خوش رہے گا جو خفگی لے گذرا
امکان پر آن قسمت بدلنے کو یوں
حسن کا آتنگ کوئی موقوفی لے گذرا
اک ضیافت بدلے اداسی ہمیں ملے پھر
اپنی شجاعت سے یہ ہر خوشی لے گذرا
خوش اسلوبی یہ بھی کہ ناداں ہیں ہم
جو بھی مہمان بن کر مئکشی لے گذرا
بے تغیر رویہ کب تک پتہ نہیں پھر بھی
سوچا کہ ان کو رتبہ دیں جو بے رخی لے گذرا
پرندہ شام کو گھر لوٹا تو گھونسلا ہی نہ ملا
لگتا ہے ہواؤں کا شہزور آتشی لے گذرا
چلو اب منتظری کا ساتھ نبھا کر دیکھیں
کیا پتہ کب لوٹی جو زندگی لے گذرا