جلتی ہوئی دوپہر کا سایہ نہیں ہوتا
اس حال میں جینا کوئی اچھا نہیں ہوتا
دنیا نے ستم اتنے کئے ہیں مرے دل پر
ان الجھے خیالات کا مارا نہیں ہوتا
ملنے پہ بھی چہرے کو ترستی ہیں نگائیں
خاموش نگا ہوں سے پلایا نہیں ہوتا
تنہائی کو سینے سے لگا رکھا ہے کب سے
بکھری ہوئی اس روح کا اپنا نہیں ہوتا
مجھ سے نہ ہوئی اپنے ہی اشکوں کی حفاظت
بہتر ہے کہ مجھ سے مرا پورا نہیں ہوتا
کچھ لوگ یہاں پیار کے جنگل سے گزر کر
خود شہر خرافات میں ایسا نہیں ہوتا
دل پارہ ہوا میرا بس اک لفظ نہیں پر
امید نہ تھی ایسا ہی رویا نہیں ہوتا
کیوں خوف یہ بے نام لئے پھرتی ہے وشمہ
شدت سے تری دید کا پورا نہیں ہوتا