بھرے عالم میں سرُاغ تمہارا نہیں ملتا
دلگیر ملتے بھی ہیں غم کا مارا نہیں ملتا
پوچھا کہ وہ بام پہ بے بس کیوں کھڑی ہے
سنا یہ بھی کہ گلیوں کو کوئی بنجارا نہیں ملتا
اب شدت کی حدوں سے لوٹ چکے ہیں
اس سے تو اب عاشقی کا گذارا نہیں چلتا
یوں بھی سفینے مجھے لیکر ہی ڈوبے
میری ناؤ کو قسم سے کنارہ نہیں ملتا
ان ہی نظاروں کو اڑنے لگے ہیں ہم
جہاں دوری سے بھی دل کو اشارہ نہیں ملتا
دکھوں کی شب میں سفر کی گمنامی کو
چاند ہے یا تو کوئی اندازہ نہیں ہوتا
سرانے سے باہیں بچھاتے بھی چلو سنتوشؔ
مگر بھرم سے نیندوں کو سہارا نہیں ملتا