بھولی ہوئی اُس بام پہ جاتے ہیں کبھی کبھی
کہ میرے پاس یہ ایام آتے ہیں کبھی کبھی
اکثر تو میں رنج و غم میں رہتا ہوں
مگر چہرے پہ ابتسام آتے ہیں کبھی کبھی
میری منزل کی ان دراز راہوں میں کہیں
ٹوُٹے ہوئے مکان آتے ہیں کبھی کبھی
اس جہاں سے مجھے کوئی حرص نہیں
قسمت کے یہ حطام آتے ہیں کبھی کبھی
کون چاہتا ہے دامن سے فرقت مگر
محبت میں وہ قیام آتے ہیں کبھی کبھی
میں اتنا متفکر بھی کیوں رہوں سنتوشؔ
گھر پر مہمان آتے ہیں کبھی کبھی