بھٹک کر گمنام راستے پیروں میں ٹھہر جاتے ہیں
قابل لحاظ کچھ لوگ اندھیروں میں ٹھہر جاتے ہیں
یہ زمانہ کچھ حالتوں سے بھی مطابقت رکھتا ہے
کہ گھر ہوتے ہوئے مزاج بازاروں میں ٹھہر جاتے ہیں
میری کسی قلت کو اب بھی عبادت کی ضرورت ہے
کبھی کبھی ہم کئی آزاروں میں ٹھہر جاتے ہیں
سنیں تو ہر گلے سے اپناپن گرجتا ہے پھر بھی
مفلسی میں بے زر! وہیں مکاروں میں ٹھہر جاتے ہیں
میں میری خودنمائی سے اتنا واقف تو نہیں مگر
خاک پہ رہتے خیال اکثر ستاروں میں ٹھہر جاتے ہیں
بے وفائی کے کمال کو سب نے شوخ سمجھا سنتوشؔ
قابل یقین کہیں ہم اعتباروں میں ٹھہر جاتے ہیں