بہت اداس ہے یہ دل، اوپر سے رات کا پہرا
تنہائ ہی تنہائ ہے ، گردشِ ویراں میں سناٹا
خامشی چینختی پھرتی اور یہ دل بیچارا
اے دیواروں تم ہی سن لو ،دل کی دشت بیانیاں
افلاک سے کریں باتیں؟؟ پر تارے بھی نہیں نکلے
کہاں ہے ماہتاب شہزادہ ، جاؤ اندھیرا کھوج لاو تم
وہ دل کا سکوں جاناں ، وہ چاند کی تجلیاں
وہ خامشی کی حسرتیں ، وہ آدابِ سخن جاناں
اِدھر بادلوں نے آگھیرا ، چاند بھی نہیں نکلا
اب اک شاعرہ کی شاعری بھی، کیسے انجام کو پہنچے ؟
جب چاند ہی نہیں نکلا ، آسماں پر نظر ہو ،آنکھیں آسماں کو نہ دیکھیں؟
تو کیسے نہ رنجیدہ ہو جاناں ؟ کہ چاند بھی بزم میں نہیں نکلا
دل کی آواز ہے جاناں ، دل اداس ہے جاناں۔۔