بہت میرے خوابوں میں آ جا رہے ہو
غضب بات یہ کہ غضب ڈھا رہے ہو
ارے پہلے اطوار اپنے تو دیکھو
زمانے کی زلفوں کو سلجھا رہے ہو
اگر مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے
تو کس کے خیالوں سے شرما رہے ہو
یہ کیا میکدے کے مسافر سے کہنا
کہاں جا رہے ہو کدھر آ رہے ہو
جو اقرار ہے کر زمانے کے آگے
یہ کانوں میں کیا آپ فرما رہے ہو
جہاں خواب ٹوٹا تھا جوڑو وہیں سے
حقیقت کو کیوں بیچ میں لا رہے ہو
یہ شانہ ہے میرا یا دیوار گریہ
کہ ہر راز سینے کا بتلا رہے ہو
ابھی تو محبت کا پہلا قدم ہے
تو پہلے قدم پہ ہی گھبرا رہے ہو
یہ تم ہو یا مصرعہ ہے کوئی جگر کا
فضاؤں میں خوشبو سی بکھرا رہے ہو