ڈرتا ہوں اپنے آپ سے وحشت نہیں مجھے
ایسا نہیں کہ تم سے محبت نہیں مجھے
میرا بدن ہے خاک پہ کھینچوں کہ آگ میں
تم جاؤ تم سے کوئی شکایت نہیں مجھے
اک خوش بدن کو چھو کے پریزاد کر دیا
اب اختلاف و وہم وحقیقت نہیں مجھے
تنقید کے لیے نہیں لکھی یہ داستاں
اصلاح حرف کن کی ضرورت نہیں مجھے
آگے کسی کے ہاتھ پساروں میں کس طرح
دامن سمیٹھنے سے ہی فرصت نہیں مجھے
محسوس ہو رہی ہیے تمھاری کمی بہت
دنیا سے ورنہ کوئی شکایت نہیں مجھے
عاصم میں عشق پیشہ قبیلے کا فرد ہوں
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے