بیقراری میری اور ہو بہانہ تیرا
Poet: By: Peerzada Arshad Ali Kulzum, harrisburg pa usaبیقراری میری اور ہو بہانہ تیرا
زبان میری اور ہو افسانہ تیرا
عبادت کا مزا آئے گا تب یارا
جبیں میری اور ہو آستانہ تیرا
آج میں نے کی آسماں سے گزارش
کرن میری اور ہو ڈھکانہ تیرا
نشہ آجائے گا مہ اور محفل کا بہت خوب
جوانی میری اور ہو زمانہ تیرا
تمنا میری کاش کوئی پوری کر دے
صراحی میری اور ہو مہ خانہ تیرا
نرالی نرالی پھر جب دیکھانا ادائیں
شمع میری اور ہو پروانہ تیرا
ناحق چھڑکے پھر تب مجھے دیکھنا
رات میری اور ہو مسکرانا تیرا
عدالت بنا دے کوئی ایسی ولله
خطا میری اور ہو ہرجانہ تیرا
فائدہ جب بہار کا ہو تیری
شاخ میری اور ہو چہچہانا تیرا
لفظ ہوں روح کو سراب کر دیں
غزال میری اور ہو گنگانا تیرا
کوئی ایسا رازدار آ بیٹھے
تسلی میری اور ہو گبھرانا تیرا
اس ناچیز بندے کی حسرت بھی کیا ہے
کہانی میری اور ہو سنانا تیرا
الٹی ہو جائے بات ہر تیری پھر مزا آئے
نظر میری اور ہو آشیانہ تیرا
کاش اک قلزم ایسا بھی آئے
مسکراہٹ میری اور ہو ہچکچانا تیرا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل







