بینائی عاشق کو چاہئے اور کیا؟
اپنے رخِ زیبا کو دکھلایئے اور کیا
نور چھلکتا ہے پردے میں ہوں کہ نہ ہو
اس دید کے عاشق کو نہ ترسائیے اور کیا
سانسوں کی تار ٹوٹنے لگتی ہے بار بار
اب تو دید، دید سے ٹکرائیے اور کیا
جانِ غزل، تمنائے روح اور قرارِ دل
جنبش لبوں سے کرکے ستم ڈھایئے اور کیا
احسن جو لکھنے بیٹھا میں یہ داستانِ عشق
ہر شعر پکار بیٹھا بتلائیے اور کیا