بیٹھے ہیں اسی راہ پہ بچھڑے تھے جہاں سے
Poet: امید خواجہ By: امید خواجہ, 1e Exloermondبیٹھے ہیں اسی راہ پہ بچھڑے تھے جہاں سے
وابستہ ہیں پر آج بھی اس دردِ نہاں سے
اس آدمِ خاکی کی اِڑی خاک زمیں پر
بے قدرئی افلاک سے کچھ عشقِ بتاں سے
کچھ سال نہیں آدھی صدی کی ہے حقیقت
آئے تھے بڑی شان سے جب خُلدِ زماں سے
دنیا کی تگ و تاز بھی اور رفعتِ دوراں
خوش بخت کبھی اور کبھی تشنہ جہاں سے
افراطیٔ و تفریط کا بھی کھیل عجب ہے
پہچان ہے آدم کی مگر سود و زیاں سے
کچھ ثانئے اس سمت بھی اے پیکرِ خاکی
یہ اہلِ فلسطین ہیں شاکی ہیں جہاں سے
ہیں بر سرِ پیکار یہ موسیٰ کی نسل سے
پہچانتے ہیں لوگ جنہیں عقلِ زماں سے
گو نسلِ پیمبر ہیں مگر فتنۂ دوراں
اصلاً تو چچّا زاد ہیں پر فتنہ رساں سے
خوں ریزی و مقتل کے ہیں معمار و پرستار
پر دانش و دھنوان کے بھی رُوحِ رواں سے
جب حشر میں اسحاق سے آنکھیں ہوئیں دو چار
اندازِ بیاں ڈھونڈنا تاویلِ بیاں سے
سب ساکت و صامت ہیں بہم دیکھ رہے ہیں
انسان پہ انساں کے ستم دیکھ رہے ہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






