بیٹھے ہیں اسی راہ پہ بچھڑے تھے جہاں سے
Poet: امید خواجہ By: امید خواجہ, 1e Exloermondبیٹھے ہیں اسی راہ پہ بچھڑے تھے جہاں سے
وابستہ ہیں پر آج بھی اس دردِ نہاں سے
اس آدمِ خاکی کی اِڑی خاک زمیں پر
بے قدرئی افلاک سے کچھ عشقِ بتاں سے
کچھ سال نہیں آدھی صدی کی ہے حقیقت
آئے تھے بڑی شان سے جب خُلدِ زماں سے
دنیا کی تگ و تاز بھی اور رفعتِ دوراں
خوش بخت کبھی اور کبھی تشنہ جہاں سے
افراطیٔ و تفریط کا بھی کھیل عجب ہے
پہچان ہے آدم کی مگر سود و زیاں سے
کچھ ثانئے اس سمت بھی اے پیکرِ خاکی
یہ اہلِ فلسطین ہیں شاکی ہیں جہاں سے
ہیں بر سرِ پیکار یہ موسیٰ کی نسل سے
پہچانتے ہیں لوگ جنہیں عقلِ زماں سے
گو نسلِ پیمبر ہیں مگر فتنۂ دوراں
اصلاً تو چچّا زاد ہیں پر فتنہ رساں سے
خوں ریزی و مقتل کے ہیں معمار و پرستار
پر دانش و دھنوان کے بھی رُوحِ رواں سے
جب حشر میں اسحاق سے آنکھیں ہوئیں دو چار
اندازِ بیاں ڈھونڈنا تاویلِ بیاں سے
سب ساکت و صامت ہیں بہم دیکھ رہے ہیں
انسان پہ انساں کے ستم دیکھ رہے ہیں
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






