بے خبری کا موسم ہے
باتیں یاد نہیں رہتیں
تو میری خاموشی کو
کتنا سندر لگتا ہے
تنہائی یہ کہتی ہے
بات کرو دیواروں سے
دروازے کی دستک سے
امیدیں وابسطہ ہیں
وہ بولی یہ بارش کیوں؟
میں بولا بے چینی ہے!
ہجر کے مارے لوگوں کی
رنگت بھی اُڑ جاتی ہے
میری خاموشی اُس کو
کیوں آوازیں دیتی ہے
میں اب کیا بیزاری میں
رونے دھونے لگ جاؤں؟