کون احسان تمہارے اٹھاتا پھرے
زندگی کو اپنی محتاج بناتا پھرے
کیون کوئی اپنی سر بلندی کیلئے
سارے زمانے کو نیچا دکھاتا پھرے
کیا ضرورت ھے سر جھکانے کی
کیون کوئی آبرو دائو اپنی لگاتا پھرے
اک حقیقت کے افشاں کرنے کو
بارہا جھوٹی قسمیں کوئی کھاتا پھرے
دو الفاظ پیار سے بولے تو سہی
پھر نہ چاھے وہ گلے لگاتا پھرے
یار نے بدلے ھین نگاہ کے تیور
یہ بے رخی اسد کس کو اب بتلاتا پھرے