بے ساخت دراڑیں جبکہ ردم سنوارتی ہیں
تو یہ سنجیدہ رغبتیں اپنا عدم سنوارتی ہیں
راہ کے کانٹوں کو بے ریائی رہی منزل سے
جو پھسل گئی ٹانگیں اب قدم سنوارتی ہیں
کثیر نظاروں سے لوگ جور و جفا سے گذر گئے
پرُ زور وہ موجیں ہمیشہ ستم سنوارتی ہیں
بے خودی میں قرار کو فوقیت بھی ملی تھی
یوں عظمتیں بھی کبھی کبھی انتم سنوارتی ہیں
اس جہاں کی سطح پہ آگ سی سلگتی ہے
وہ جھلسی جانیں تو اب زخم سنوارتی ہیں
انہیں بے سواد الجھنوں کو سلجھاکر رکھدو
ضد پہ آکر چاہتیں تو ظلم سنوارتی ہیں