بے نشان راستے، نا معلوم سفر
Poet: Khalid Kasi By: Khalid Kasi, Quettaبے نشان راستوں پر
نا معلوم سفر پہ
دکھتے پاؤں اور بوجھل دل سے
چل پڑا ہوں اک بار پھر سے
اس سفر میں ہمراہی میرے
سارے دکھ اور سارے درد
میں اکیلا بے رہنما
کس سے پوچھوں میں راستہ
اور بتائے بھی کون بھلا
کہ خود منزل کا نہیں پتا
میں کب سے چلا ہوں کب تک چلوں گا
کچھ یاد نہیں نہ ہے خبر
کئی بار تھک کے میں بیٹھ گیا
پاؤں چھالوں سے اٹ گئے
سانسیں بھی پھر ٹوٹنے لگیں
مجھے لگا کہ اب اٹھ نہ سکوں گا
اس سے آگے چل نہ سکوں گا
میں خود کو حوصلہ دینے لگا
کہ ابھی تو جفاؤں کا آغاز ہوا ہے
ابھی سے تھک کے بیٹھ گئے
ابھی تو سفر کٹھن پڑا ہے
ابھی سے حوصلہ توڑ دیا ہے
ابھی تو طوفان آیا نہیں ہے
ابھی سے سانسیں ٹوٹ گئی ہیں
چلو اٹھو سنبھالو خود کو
ٹوٹتی سانسوں کو پھر سے جوڑو
چلو بڑھو اور بڑھتے جاؤ
میں اٹھ پڑا اور یوں لگا
جیسے ساحل سے دھکیل دے کوئی
ابھرتی لہروں میں پھینک دے کوئی
بپھرتی لہریں لے کے چلیں
کبھی چٹانوں میں کبھی بھنور میں
میں نے چاہا کہ لوٹ جاؤں
پھر سے اسی ساحل پہ جہاں سے
گٹھڑی دکھوں کی باندھ کے چلا تھا
اس گٹھڑی کو میں پھینک آؤں
کہ بوجھہ بڑا ہے سفر کڑا ہے
مگر میں ایسا کر نہ پاؤں
کہ اس ساحل پہ جانے کے سارے راستے
کٹ چکے یا ڈوب چلے ہیں
میں خواہشوں کا گلا دبا کے
خود کو لہروں کے سپرد کر کے
چل پڑا ہوں نا معلوم سفر پہ
بے نشان راستوں سے گزرتا ہوا
نجانے لہریں پار لگا دیں
یا بھنور میں پہنچا کے لوٹ آئیں
اس کے بعد کیا ہوگا
یہ سوچنا تو عبث ہے
کہ لہروں پہ مجھ کو بھروسہ نہیں ہے
جو بھی ہے بس ایک یقیں ہے
کہ لوٹ آنے کا امکاں نہیں ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






