ہمیشہ حسن کے جلووں سے اجتناب کیا
زمانہ چھوڑ کے اک تیرا انتخاب کیا
آزردگی ہے سزا اس کو عمر بھر کے لیے
وفا کے جرم کا جس نے بھی ارتکاب کیا
تاریکیوں میں حسیں چاندنی بکھرنے لگی
جو چاند چہرہ کہیں اس نے بے نقاب کیا
میں کوئی شعر کہوں مجھ میں ایسی بات کہاں
ترے غموں نے مجھے صاحب کتاب کیا
بجھا رہا ہے مری زندگی کی قندیلیں
وہ ایک ذرہ جسے میں نے آفتاب کیا
مرا ہی خون مجھے بے سکون کرتا رہا
گئے دنوں کا کبھی میں نے جو حساب کیا
مری خاموشی کو تم اپنی عافیت سمجھو
کھلیں گے بھید تمھارے اگر خطاب کیا
یہی ہے شیوہ جہاں میں عظیم لوگوں کا
عدو کو بخش دیا ، اپنا احتساب کیا
کہاں تکبر شاہی ، کہاں جھکا ہوا سر
ترے غرور نے ہی تجھ کو آب آب کیا
سوال اتنا ہے زاہد سوال ہو کیسے
ہمیں تو ایسے سولوں نے لاجواب کیا