مجھے ترے تعلق کی، ہوس نہیں مودت تھی
تجھے لگا ضرورت ہے، مگر مجھے محبت تھی
ملال دے تو غم کیسا، وصال دے تری مرضی
رضا جہاں جہاں تیری، وہیں مری مسرت تھی
یہ حکم تھا ترا مولا، میں تجھ کو آزماؤں گا
غموں میں مسکرا دینا، مرے لیے عبادت تھی
کہیں ہوس ہے دنیا کی، کہیں طلب ہے زن و زر
کیا ہوا زمانے کو، کیا یہی حقیقت تھی؟
ہے معرکہ بپا ہر سو، سبھی یہاں سپاہی ہیں
قلم اٹھا، اذاں دیدے، یہی تری شہادت تھی
جفا کے تیر کھا کر بھی، لبوں پہ مسکراہٹ تھی
حَسَن کسی کی فطرت میں، کمال کی مروت تھی