تیرے آنے کی امید نہ تھی مگر دروازہ کھلا رکھا زخم کھا کے بھی تیرے لئے سینہ اپنا کھلا رکھا معلوم ہے مجھ کو تجھے چاہنے والے لاکھ ہزار شاید کبھی پلٹ آئے اسی آس پہ دل کا در کھلا رکھا