ترا عشق ہے یا کوئی جنوں جو کہ میرے سر پہ سوار ہے
تجھے یاد کرتی ہوں ہر گھڑی یہی اب تو میرا شعار ہے
تو نہیں تو فصلِ بہار میں کوئی رنگ ہے نہ ترنگ ہے
ترے دم سے ہیں سبھی رونقیں ترا پیار ہے تو بہار ہے
ترا لفظ لفظ ہے معتبر نہ ہو کیوں یقین تری بات پر
تری آ نکھ میں جو گھلا ہوا ہے وہ رتجگوں کا خمار ہے
ترے عشق پر جو نہیں فدا انہیں کیا خبر تو ہے چیز کیا
تری ایک جنبشِ چشم پر مری کائنات نثار ہے
تجھے یاد ہے ؟ مجھے ایک دن یہ کہا تھا تونے دُلار سے
مرے گھر کی ہے تو ہی چاندنی تو دل و نظر کا قرار ہے
رہِ کارزارِ حیات میں ہیں قدم قدم بڑے معرکے
یہاں بچ کے چلنا ہے ایک فن بڑا راستہ دشوار ہے
ترے پیرہن کا کمال ہے جو گھلی ہے خوشبو ہواؤں میں
ترے عشق کا ہے یہ معجزہ جو گلوں پہ چھایا نکھار ہے
ملی جب سے تجھ سے مری نظر مجھے خود کی بھی نہ رہی خبر
یہی حال ہے مرا رات دن نہ سکون ہے نہ قرار ہے
میں تری نظر میں اے ہمسفر ! کبھی ٹھہر پائی نہ معتبر
مجھے زخم دینا ہی ہر گھڑی تری زندگی کا شعار ہے
مرے خواب سارے دھواں دھواں ہوا زخمی میرا رواں رواں
جانے کون سی ہیں یہ منزلیں جانے کون سا یہ دیار ہے
تو ملے تو تجھ سے یہ پوچھ لوں،مجھے جان کر یہ ، ملے سکوں
تری رہ میں جو ہیں پڑے ہوئے کہیں ان میں میرا شمار ہے؟