ترک تعلق
تم ہی بتاؤ جاناں
کیا یوں ترک تعلق ہو جاتا ہے
ذہن و دل کو صرف انا کے ہاتھوں گروی رکھ دینے سے
خود کو اپنے کمرے میں بند کر لینے سے
بستر پہ اوندھے منہ لیٹے
بین کریں جب یادیں
رشتوں کی میت پہ رو لینے سے
تم ہی بتاؤ جاناں
کیا یوں ترک تعلق ہو جاتا ہے
آنکھوں کے چوگردی حلقے
سارے راز اگل دیتے ہیں
ساری خوشیوں کےسپنے
اپنے اپنے رستے لیتے ہیں
ترک تعلق
ایسےتھوڑی ہو جاتا ہے
وصل کے لمحے
ہجر کے برسوں کو لوٹانے پڑتے ہیں
اور خوشیوں کے لے پالک بچے
وحشی غم کے پنجوں میں دینے پڑتے ہیں
نام وفا پہ
جتنی جھوٹی قسمیں کھائیں
ان کا بھی کفارہ دینا پڑتا ہے
بس خط واپس کر دینے سے
یا تحفے واپس کردینے سے
تم ہی بتاؤ جاناں
کیا یوں ترک تعلق ہو جاتا ہے