تری جب مہرباں یادیں ہوئی ہیں
بہت ہی خوش نما راتیں ہوئی ہیں
ہواؤں سے بہت ڈرنے لگا ہوں
گھنی جب سے مری شاخیں ہوئی ہیں
وہ جس دن سے ہوا ہے دور مجھ سے
مری اس سے بہت باتیں ہوئی ہیں
انہیں پر جی رہے ہیں ہم ابھی تک
جو خوابوں میں ملاقاتیں ہوئی ہیں
دھواں نکلا ہے تیری کھڑکیوں سے
مگر پرنم مری آنکھیں ہوئی ہیں
تری خوشبو فضا میں گھل گئی کیا
معطر کیوں مری سانسیں ہوئی ہیں