تری چاہت کا مجھ کو گر کوئی احساس نہ ہوتا
تو پھر اے ہمسفر تو آج میرے پاس نہ ہوتا
مرے اپنوں کی چاہت میں کمی شاید رہی ورنہ
مری تقدیر میں لکھا تو یہ بن باس نہ ہوتا
نہ ملتیں ہر قدم پر ٹھوکریں مجھ کو زمانے کی
روئیے میں مرے گر اس قدر اخلاص نہ ہوتا
نہ ہوتی گر شروع سے مجھ کو عادت ذود رنجی کی
یہ رنج و غم کا موسم مجھ کو ہر گز راس نہ ہوتا
بڑا ہی عام سا وہ شخص تھا لیکن کھلا مجھ پر
نہ ہوتا پیار گر اس سے تو پھر وہ خاص نہ ہوتا
میں خوش رہتی ہوں ہر لمحہ یہی اکثر جتاتی ہوں
اگر یہ سچ ہے تو دل یوں سراپا یاس نہ ہوتا
دیا وہ غم کہ میرے دل کو چھلنی کر دیا تم نے
اگر ایسا نہ کرتے تم ، یہ دل بے آس نہ ہوتا
چرالی اس نے خوشبو موسمِ گل کی سبھی عذراؔ
وگرنہ اس طرح ہر پھول تو بے باس نہ ہوتا