ترے ستم کے لئے جس کا انتخاب نہیں
وہ امتحان محبت میں کامیاب نہیں
نگاہ غور سے دیکھیں تو میکدے والے
ہمارا جام ہے گردش میں، آفتاب نہیں
وہ سب کی سنتے ہیں ، سب کو جواب دیتے ہیں
مرے سوال کا لیکن کوئی جواب نہیں
خدا گواہ کہ اہل نظر کے مسلک میں
شراب حسن سے بہتر کوئی شراب نہیں
اب اس مقام پہ لے آئی ہے تری الفت
وہ الجھنیں ، وہ اذیت ، وہ اضطراب نہیں
نگاہ جم گئی اس چہرہ کتابی پر
اب اس کتاب سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں
کب ان کی یاد میں بے تابیاں نہیں دل کو
کب ان کے ہجر میں مٹی مری خراب نہیں
نصیر ! میکدہ زندگی میں لطف ہی کیا
شریک جام ، جو وہ رشک ماہتاب نہیں