ہر روز کا ملنا تھا ، ہنسنا تھا ہنسانا تھا
اس شوخ کی الفت کا اک وہ بھی زمانہ تھا
رت بیتی رفاقت کی ، اب ہجر کا موسم ہے
انجام پہ ہم روئے آغاز برا نہ تھا
ناکام رہی آخر ہر وقت کی دلد اری
ہم اپنا جسے سمجھے وہ شخص بیگانہ تھا
ترے وصل کی شبنم میں بھیگے تو خبر کیا تھی
ترے ہجر کے شعلوں میں ہمیں خود کو جلانا تھا
اک لمحے کو آیا اور پم دل کو لگا بیٹھے
اک جھونکا کہیں بھی تو جس کا نہ ٹھکانا تھا
کب داد کی حسرت تھی ، ہم نے جو غزل چھیڑی
شعروں میں محض اپنا احوال سنا نا تھا
اسے فکر تجارت تھی ، مشتاق سخن نہ تھا
سر درد تو محفل سے اٹھنے کا بہانہ تھا
امید مسیحائی ہم جس سے لگا بیٹھے
وہ زخم تو دیتا تھا زخموں کی دوا نہ تھا
جاتے ہوئے کہتے تھے اب یاد نہ تم کرنا
آسان کہاں زاہد انھیں دل سے بھلانا تھا