تجھے یہ غم کہ روشنی بہت ہے
مجھے یہ فکر تیرہ شبی تو کٹے
تیرے دامن میں چاند بھی ستارے بھی
مجھےیہ فکر دل کی تیرگی تو کٹے
تو محصوراپنی جگمگاتی شبستانوں میں
مجھے یہ فکر کہ شب ہجر کی تاریکی تو کٹے
یہ ٹھیک ہے کہ تو محو اپنے آپ میں ہے
یہ سہی کہ میں ایک دل گداز رکھتا ہوں
تیری چاہت ہے محدود خود تیری ذات میں
میں زندگی کو پرکھنے کا انداز رکھتا ہوں
تو سر تا پا ایک کھلی کتاب سہی
میں سینے میں چھپاۓ انگنت راز رکھتا ہوں
یہ تضاد فکر و نظر سلامت رہے
انہیں عناصر سے مربوط ہے زندگی کا نظام
یہ تیری سرشت ہے جو بدل نہیں سکتی
خواہ مخواہ کیوں تجھ پہ دھروں کوئی الزام
ہم مسافر ہیں متضاد راہوں کے
اسی طرح تو چل رہا ہےکائنات کاانتظام
تو اپنے رنگ و روپ میں استادہ رہے
میں اپنی خودفراموشی میں گم رہوں
تو اپنی خیالوں کی دنیا میں محصور رہے
میں اپنی ذات کے دریا میں متلاطم رہوں