میدان مے بپھری لاشوں کے بدن پے آنسوں مے وضو دیکھے
ہم نے توحید کے جلتے ہوے چراغوں مے لہو دیکھے
تیری عظمت پہ کرو جان قربان اے عرب معظم
تیرے دامن مطہر مے لیا کیسے شیروں نے جنم
کچھ سوچ کے فکرات پہ یہ نظر اٹی ہے
اے عرب تیری شجاع کی جہاں مے یہ خیرات بٹی ہے
توحیدتوحید کے آنگھن نے اگر مانگا ہے اک سر تو
یہاں لاکھوں محبان گردنیں دامن سے کٹی ہے
میرے فکرات تجس کو مولا عمدہ بنا دے
اس بحر حزب کو اب تابندہ ہوا دے
وہ قول کے سچے تھے کہ اقرار کے پکے
ہر عیب سے بے رہے اس نسل کے بچے
افق کے آسمان پہ چمکا اور بحر عرب ہے
نبوت سے ہے سرفراز یتیم عبداللہ کا سفر ہے
بنی اسرائیل کے آنگھن مے اتنی تو نہ شفقت تھی
یہ آل محمد ہے جو ہر انداز سے بہتر ہے
جہاد کا جنم شکم مادری حق دودھ اگر ملتا تو یوں اسرار نہ کرتے
میدان مے ہوتی اگر موت تو جنگجو بستر مرگ پہ یوں لاچار نہ مرتے
کم سن ہے مجاہد ہے کہ وردھان الہی
جس طرف پڑی ٹاپیں اسلام کی دھوم مچائی
اس مرد مجاہد نے صبح کے افق کے وہ نام جڑا ہے
ہر آنے والا سورج لینے کو اجازت کھڑا ہے
جہاد کی صف اول مے آتے جو مرد صالح
عبادت بھی لیتی ان کے خیالات کا مزہ
قضا بھی کرتی ایسی حیات کا حیا
جو تلاش کرے صبح کی روشن فضا
جو بھی میدان مے جھپٹا وہ زمیں دوز ہوا
تلوار محمد مے یزداللہ کا زور ہوا
یہ آمد شیر تھی کہ دہر جیسے ظالم نہ ٹکے
کئی سرمے میدان سے بھاگے ماؤں کی گودی مے چھوپے
حق سے باتل کے خیمے اکھاڑ دیتے تھے
یہ وہ مرد مجاھد تھے جو قضا کی حالت بگاڑ دیتے تھے
وہ جب جانب کفار بڑھا کرتے تھے
دشمن کی صفوں کو الٹ دیا کرتے تھے
کیا شیر سی چستی تھی کہ شہباز سی تیزی
وہ بجلی کی طرح افق پہ چمکا کرتے تھے
میدان مے عمر کٹانی ان کا انداز بیاں ہوتا تھا
ان کی فوج کا ہر ایک سپاہی سالار سپاہ ہوتا تھا
قسمت ممنون منت تقدیر کو تدبیر دیا کرتے تھے
حکم الہی سے جہالت کے اندھیروں کو چیر دیا کرتے تھے
تقدیر بدلتی ہے نہ تدبیر بدلتی ہے
مرد مجاھد کے مقدر کو شمشیر بدلتی ہے
جو زمین مے اسلام کی راہ سے فساد کو چنتے ہیں
در اصل وہی لوگ جہاد کو چنتے ہیں
شکشت خوردہ با خدا کبھی نگاہ نہ اٹھتی
ہوتی احسان مندی نفس مے باد صبا حیا کا دم نہ گھٹی