تقدیر ترچھی رہی تو دعائیں شفا نہیں کرتی
مقدر ہی متضاد میرا، خدائی خطا نہیں کرتی
ہماری رضا ہے کہ تو جہاں رہے آباد رہے
میری صدائیں بھی کسی کو برباد نہیں کرتی
پیار پر اعتبار ممکن ہوتا تو اور کیا چاہیے
یہ وہم پرستی کہ اپنا بھی خیال نہیں کرتی
میں برسوں کا گرا پتہ بنجر پہ پڑا ہوں
کہ میرے بھٹکنے کا بھی ہوا داد نہیں کرتی
میں واعظ ہوکر آج بھی کہہ سکتا ہوں
عشق تو جنون ہے، محبت تباہ نہیں کرتی
رخیاں دھڑکن دیتی ہیں اور نظریں قتل
جس طرح نگاہ نے مارا وہ اَدا نہیں کرتی
ہو سکتا ہے کہ اک دن خوشحال ہو جائیں سنتوشؔ
لیکن میری قسمت بھی مجھے دُعا نہیں کرتی